Search This Blog

Monday 23 June 2014


کسی گاؤں کے لوگوں کو اپنے گاؤں میں موجود مسجد کی لوکیشن پہ اعتراض تھا۔ وہ لوگ چاہتے تھے کہ مسجد کی موجودہ جگہ پہ کھیلنے کا میدان بنا دیا جائے جبکہ مسجد کو گاؤں کے دوسرے کونے میں منتقل کر دیا جائے۔ گاؤں کے تمام بڑے بوڑھے روز پنچایت کرتے مگر کوئی حل نہ نکلتا۔ پریشانی تھی کہ بڑھتی جاتی تھی آخر کار ایک شخص اٹھا اور بولا کہ میں اس مسجد کو اٹھا کہ اس کونے میں رکھ دیتا ہوں۔ گاؤں کہ لوگ اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے۔ اس نے شرط رکھی کہ کیونکہ مسجد وزنی اور بڑی ہے اس لیے مجھے اس کو اٹھانے کے لیے تیاری کرنی پڑے گی اس کے لیے گاؤں والے بدلے میں میری خوراک ، رہن سہن اور مالش وغیرہ کا بندوبست کریں ٹھیک تیں ماہ بعد میں یہ مسجد یہاں سے اٹھا کہ دوسری جگہ رکھ دوں گا۔ گاؤں والے اس کی بات مان گئے اور اس کے مطالبات ماننے لگے۔ تین ماہ بعد گاؤں والے مسجد کے پاس جمع ہو گئے اور اس کا انتظار کرنے لگے۔ وہ شخص ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرتی ٹولیوں کے جھرمٹ میں گاؤں والوں کے سامنے نمودار ہوا اور آتے ہی اس نے دس بیس ڈھنڈ نکالے اور اپنے کندھے پہ اپنا رومال ڈال کے بولاکہ بھائیوں تم سب مسجد اٹھا کہ میرے کندھوں پہ رکھوں تاکہ میں اسے اٹھا کے گاؤں کے دوسرے سرے پہ رکھ آوں۔
یہ ہی کچھ ہمارے مولانا قادری کرتے ہیں۔ ہر بار بلند و بالا دعوے کرتے ہیں عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور آخر میں صرف خود کو بچا کہ لے جاتے ہیں۔ انقلاب کے لیے عوام ترستے و تڑپتے رہ جاتے ہیں اور وہ اپنا ڈرامہ لگا کہ بڑے مزے سے نکل جاتے ہیں۔ انقلاب کے لیے عوام کے درمیان ان کے جیسے رہنا پڑتا ہے۔ عام آدمی اگر پیٹ پہ ایک پتھر باندھے تو قائد کو دو پتھر باندھنے پڑتے ہیں۔ کھانے میں مرغ مسلم چھوڑ کے دال روٹی کھانی پڑتی ہے۔ تب جا کہ انقلاب کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ انقلاب نہیں صرف اقتدار کی جنگ ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو تمہارا حکمران بننے کی زبردستی کوشیش کرے اس کا منہ توڑ دو۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment