Search This Blog

Saturday 24 October 2015

میدان،کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی آخری تقریر


میدان،کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی آخری تقریر



لوگو! تم میں سے ہر ایک شخص جو مجھ سے واقف ہے اور ہر ایک وہ شخص جو مجھے نہیں جانتا، اچھی طرح آگاہ ہو جائے کہ میں تمھارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) کا نواسا ہوں۔ میرے والد حیدرِکرار علی (رضی اللہ عنہ) اور ماں فاطمہ (رضی اللہ عنہا) بنتِ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) ہیں۔ میرے چچا جعفر طیار (رضی اللہ عنہ) اور میرے بھائی حسن (رضی اللہ عنہ) تھے۔ اس نسبتی فخر کے علاوہ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) نے مجھے اور میرے بھائی حسن (رضی اللہ عنہ) کو جوانانِ اہل جنت کا سردار بتایاہے۔ اگر تم کو میری اس بات کا یقین نہ ہو تو میر ے نانا کے ابھی تک بہت سے صحابی زندہ ہیں ، تم ان سے میری بات کی تصدیق کر سکتے ہو۔۔ میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ہے، میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور میں نے کبھی کسی مومن کا قتل نہیں کیا ، نہ ہی آزار پہنچائی ہے۔۔ اگر عیسیٰ (علیہ سلام) کا گدھا بھی باقی ہوتا تو تمام عیسائی قیامت تک اس کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتے۔۔


اے لوگو! تم کیسے مسلمان ہواور کیسے امتی ہو کہ اپنے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) کے نواسے کو قتل کرنا چاہتے ہو، نہ تم کو اللہ کا خوف ہے نہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) کی شرم ہے۔ میں نے جب کہ ساری عمر کبھی کسی شخص کو بھی قتل نہیں کیا تو ظاہر ہے مجھ پہ کسی کا قصاص بھی نہیں ہے۔ پھر بتاؤ کہ تم نے میر ے خون کو کس طرح اپنے لیے حلال سمجھ لیا ہے؟ 



میں دنیا کے جھگڑوں سے آزاد ہو کر مدینہ میں اپنے نانا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم) کے قدموں میں پڑا ہوا تھا، تم نے مجھے وہاں بھی نہ رہنے دیا۔ پھر مکہ میں بیت اللہ میں مصروف عبادت تھا۔ تم ،کوفیوں، نے مجھے وہاں بھی چین نہ لینے دیااورمیرے پاس مسلسل خطوط بھیجتے رہے کہ ہم تم کو امامت کا حقدار سمجھتے ہیں اور تمھارے ہاتھ پہ بیتِ خلافت کرنا چاہتے ہیں۔۔ جب تمھارے بلانے کے موافق میں یہاں آیا ہوں تو اب تم مجھ سے برگشتہ ہو گئے ہو۔ اب بھی تم اگر میری مدد کرو تو میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم مجھے قتل نہ کرو اور آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ میں جا کر مصروف عبادت ہو جاؤں اور اللہ تعالی خود اس جہاں میں فیصلہ کر دے گا کہ کے کون حق پر تھا اور کون ظالم تھا۔۔



اس تقریر کو سن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ:

اللہ کا شکر ہے کہ میں نے تم پر حجت پوری کردی اور تم اب کوئی عذر نہیں پیش کر سکتے۔



(اکبر شاہ خاں نجیب آبادی، تاریخ اسلام أجلد اول، دارالاندلس،صفحہ نمبر ۶۸۹۔۔۔۶۹۹)