Search This Blog

Tuesday 23 December 2014

I suggest that as Pakistan is in a state of War so, Government should institute a Revolutionary Command Council (RCC) headed by President of Pakistan and have members included Services chiefs, ISI and IB head, Prime minister (as Convener), Governors and CM of all the four provinces, Key Political Parties head (Political Parties having more than 10 Seats in the Parliament) and all the four IGPs. The RCC should be responsible for overall security and economy situation of Pakistan...

Monday 22 December 2014


کسی دور افتادہ گاؤں میں لوگوں نے مسجد میں ختمِ قرآن پاک کی محفل کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لیے گاؤں والوں کے باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجد میں ایک ڈرم رکھ دیا جائے ۔ اور اس ڈرم میں گاؤں کا ہر شخص ایک ایک گلاس دودھ کا ڈالے تاکہ مقررہ دن ختم کے لئے کھیر پکائی جا سکے ۔ گاؤں کے ایک غریب آدمی نے سوچا کہ کل اس ڈرم میں پورا گاؤں اپنا اپنا حصہ ڈالے گا تو میں اپنے حصے کئے دودھ کے گلاس کی بجائے پانی کا گلاس ڈال دیتا ہوں کسی کو بھلاکیا پتا چلے گا۔سو اس نے ڈرم میں دودھ کے گلاس کی بجائے پانی کا گلاس ڈال دیا۔ صبح ہوئی تو وہ ڈرم دودھ کی بجائے پانی سے لبالب بھرا تھا۔ 
ہم سب بھی اسی شخص کی طرح ہیں معاشرے کی اصلاح ہر کوئی کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کا خواں ہے۔ اس مقصد کے لیے بڑی بڑی دھواں دار تقاریر اور باتیں کرتا ہے۔ مگر اپنے حصے کا دودھ ڈالنے کی بجائے پانی ڈال دیتا ہے۔ نتیجہ کھیر نہیں بن سکتی۔ معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہم سب بھی عملی طور پر غریب ہیں۔باتوں کے وقت ہم سے بڑا کوئی طرم خاں نہیں مگر عمل کے وقت ہم ہمیشہ یہ امید رکھتے ہیں کہ دوسر ا شخص ایماندار بھی ہو اور صاف شفاف بھی اور کھرا بھی۔ بدلے بھی تو وہ بدلے میں تو ایک دم ایماندارصاف شفاف اور کھرا ہوں۔ اصلاح کی ضرورت تو فریق مخالف کو ہے۔ اپنا محاصبہ کوئی نہیں کرتا۔ سرکار عالی شان صل اللہ علیہ و آلہ وصلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے نیکی و بدی کا فرق ختم ہو جائے تو سمجھ لو کہ ایمان ختم ہو گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سے ہر ایک یہ سوچے کہ جو اس کے لیے بری ہے وہ ہی دوسرے کی ہے اور معاشرے کی اصلاح سے پہلے اپنی ذاتی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

Saturday 20 December 2014

ہم اللہ عزوجل سے اپنی عقل و وسمجھ کے مطابق مانگتے ہیں مگر وہ ہمیں اپنی عقل و سمجھ کے مطابق عطا کرتا ہے اور بے شک اللہ عزوجل کی عقل و سمجھ ہی کامل ہے۔

تقریبا تمام پاکستانی سیاسی جماعتیں بشمول عمران خان کی جماعت جماعتیں کم اور سیاسی قبائل زیادہ ہیں ۔ ان سیاسی قبائل میں تمام سربراہ ہمیشہ بلامقابلہ منتخب ہوتا ہے۔ پہلے تو کوئی بھی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو اس کو یا زبردستی بٹھا دیا جاتا ہے یا پھر اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ بعض میں تو انتخابات ہی نہیں ہوتے۔ صرف ایک جماعت ایسی ہے جس میں صییح معنوں میں الیکشن ہوتے ہیں اور جماعت کا کوئی بھی فرد الیکشن میں آزادانہ حصہ لے سکتا ہے۔ مگروہ جماعت مولویوں کی جماعت ہے سواسے کوئی ویسے ہی ووٹ نہیں دیتا۔ عمومی تاثر ہے کہ ووٹ خراب کرنا ہو تو جماعت اسلامی کو دے دو۔ دیگر ان سیاسی قبائل میں سربراہ قبیلہ کی مرضی و منشا کے نہ کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے نہ کوئی بات۔ سربراہ قبیلہ جس بات کا حکم دے دے یا فیصلہ کر لے، شرکا قبیلہ کا یہ فرض سمجھاجاتا ہے کہ اس کی تاےئد بھی کرے اور اسے مانے بھی اور اس کا جیسے بن پڑے دفاع بھی کرے۔ایسے میں نیا دماغ نئی سوچ اور انقلاب کہاں سے آئے۔ اور عا م عوام اور پاکستان کو کیسے فائدہ پہنچئے۔