Search This Blog

Tuesday 30 August 2016

الطاف حسین اور الطاف حسین کے پیدا کیے مسائل اور نظریات پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ موصوف ۱۴ اگست ۱۹۷۹ کو مزار قائد پہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم نظر آتش کرنے کے بعد سے لے کر ۲۲ اگست ۲۰۱۶ کے ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پاکستان کے خلاف تقریر کرنے تک ہر ہر واقعہ اور بات لگاتار خبروں کی زینت ہے ۔اور پاکستانی میڈیا اور پاکستانی سیاست کے تمام سر خیلوں نے اس کارخیر میں نمایاں حصہ لیا ہے۔گھر آئے جمائی کی طرح الطاف حسین کو ہاتھو ں ہاتھ لیا گیا۔ پاکستانی میڈیا تو خیر ویسے ہی کسی کے کہنے میں نہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ نشریاتی وقت دیا جاتا رہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ جب بھی موقع ملے موصوف پاکستان کے خلاف بولنااپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ الطاف حسین المعروف قائد تحریک نے تحریک کے بجائے ہمیشہ اپنی زات کو افضل رکھا اور اکژاپنی پارٹی کے عہداداروں، قائدین کو عام کارکنوں اور عوام سے بھرئی محفل میں پٹوایا اور گالیاں دیں۔

پاکستان کے اسلامی مارشل لاء سے لے کر لبرل مارشل لاء تک اور فوجی سے لے کر سیاسی حکومتوں تک
 سے سیاسی فائدے حاصل کیے۔ جب دل کیا حکومت کا ساتھ دیا جب دل کیااسمبلیوں اور حکومتی اتحاد سے استعفے دے دیے۔ اپنے فائدے کے لیے پاکستان کے تقریباتمام سیاستدانوں سے اتحاد کیا یا دوسرے لفظوں میں تمام سیاستدانوں نے بھائی کو استمعال کیا۔ اور اس کے بدلے میں سٹریٹجک مدد حاصل کی۔ ؛ حتکہ درینا دشمن کی خفیہ ایجنسی تک سے جا ہاتھ ملایا۔خاص طور پر کراچی میں اسلحے اور ڈر و خوف کا بازار گرم کردیاگیا۔ جس کا فائدہ وقت کے حکمرانوں سمیت کئی لوگوں نے اٹھایا۔یہاں تک کہ ایک ظالم مگر ڈرپوک ڈکٹیٹر کے کہنے پہ ۱۲ مئی کا خون آشام واقعہ برپا کردیا جس میں کراچی کی سڑکیں خون سے نہلا دیں گیں۔ 

اس ساری خون آشامی اور طوفان بدتمیزی سے قطعہ نظر الطاف حسین پاکستانی سیاست کی ایک انتہائی غیرزمادار شخصیت ہیں۔ بھائی کی وجہ سے اکثر بھائی کی پارٹی کو بیک فٹ پر آنا پڑجاتا ہے۔ ۲۲ اگست کی تقریر اور اس سے متصل دیگر واقعات کی وجہ سے ایم کیو ایم پر کڑا وقت آیا ہوا ہے ۔ حتکہ ایم کیو ایم کو الطاف حسین سے لا تعلقی کا اظہار کرنا پڑگیا ہے۔ ڈنڈا ان کو اب پاکستان زندہ باد سمیت ہر ہر مطالبہ ماننے پہ مجبور کر رہا ہے۔ یہاں تک کے ایم کیو ایم اب اپنا پارٹی منشور تک بدلنے پہ رضامند نظر آتی ہے۔مگر ان سب کے باوجود یہ مسلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ قوت کے ذور پہ ہر وہ حربہ استمعال کیا جا رہا ہے جو آگے چل کہ بہت خرناک نتائیج کاپیش خیمہ بن سکتا ہے۔


اس مسلے کو طاقت کی بجائے عقل و فہم سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ مسلہء ہم سب کا پیدا کیا ہوا ہے لہذا اسے حل بھی ہم نے کرنا ہے۔ الطاف حسین نے کبھی بھی برطانیہ کے خلاف ہرزاہ سرآئی نہیں کی لہذا برطانیہ کبھی بھی الطاف حسین کے خلاف کاروائی نہیں کرے گا اور ناہی پاکستان کے حوالے کرے گا۔ کیونکہ پہلے تو ہمارا برطانیہ سے ایسا کوئی معائدہ نہیں ہے دوسرا برطانیہ اپنا شہری کسی بھی ایسے ملک کے حوالے نہیں کرئے گا جس میں سزاموت کا قانون ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ برطانیہ کے سفیر کو وزارت خارجہ بلا کہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانہ چاہیے۔ دوسرا وہاں موجود پاکستانی کیمونٹی کی مدد سے قانونی کاروائی شروع کی جائے مکمل ثبوتوں کے ساتھ۔ اس کے علاوہ اس کا اور کوئی حل نہیں۔ 

No comments:

Post a Comment