Search This Blog

Monday 22 December 2014


کسی دور افتادہ گاؤں میں لوگوں نے مسجد میں ختمِ قرآن پاک کی محفل کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لیے گاؤں والوں کے باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجد میں ایک ڈرم رکھ دیا جائے ۔ اور اس ڈرم میں گاؤں کا ہر شخص ایک ایک گلاس دودھ کا ڈالے تاکہ مقررہ دن ختم کے لئے کھیر پکائی جا سکے ۔ گاؤں کے ایک غریب آدمی نے سوچا کہ کل اس ڈرم میں پورا گاؤں اپنا اپنا حصہ ڈالے گا تو میں اپنے حصے کئے دودھ کے گلاس کی بجائے پانی کا گلاس ڈال دیتا ہوں کسی کو بھلاکیا پتا چلے گا۔سو اس نے ڈرم میں دودھ کے گلاس کی بجائے پانی کا گلاس ڈال دیا۔ صبح ہوئی تو وہ ڈرم دودھ کی بجائے پانی سے لبالب بھرا تھا۔ 
ہم سب بھی اسی شخص کی طرح ہیں معاشرے کی اصلاح ہر کوئی کرنا چاہتا ہے۔ تبدیلی کا خواں ہے۔ اس مقصد کے لیے بڑی بڑی دھواں دار تقاریر اور باتیں کرتا ہے۔ مگر اپنے حصے کا دودھ ڈالنے کی بجائے پانی ڈال دیتا ہے۔ نتیجہ کھیر نہیں بن سکتی۔ معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہم سب بھی عملی طور پر غریب ہیں۔باتوں کے وقت ہم سے بڑا کوئی طرم خاں نہیں مگر عمل کے وقت ہم ہمیشہ یہ امید رکھتے ہیں کہ دوسر ا شخص ایماندار بھی ہو اور صاف شفاف بھی اور کھرا بھی۔ بدلے بھی تو وہ بدلے میں تو ایک دم ایماندارصاف شفاف اور کھرا ہوں۔ اصلاح کی ضرورت تو فریق مخالف کو ہے۔ اپنا محاصبہ کوئی نہیں کرتا۔ سرکار عالی شان صل اللہ علیہ و آلہ وصلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں سے نیکی و بدی کا فرق ختم ہو جائے تو سمجھ لو کہ ایمان ختم ہو گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سے ہر ایک یہ سوچے کہ جو اس کے لیے بری ہے وہ ہی دوسرے کی ہے اور معاشرے کی اصلاح سے پہلے اپنی ذاتی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment